13.4.09

اردو مزاح کا عہدِ یوسفی

اگر مزاحی ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے۔
- ابن انشاء

طنز و مزاح نے تو مشتاق یوسفی کی تحریروں میں انتہائی عروج کی منزل طے کر لی جو شاید اردو ادب کو میسر ہو سکتی تھی۔ یوسفی کی رسائی اردو نثر کی معراج تک ہوئی ہے۔ اور یہ معراج نثرنگاری کی معراج بھی ہے اور طنز و مزاح کی بھی کہ اسے عالمی ادب کے سامنے فخر و انبساط سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ عصر حاضر کا عظیم ترین صاحبِ اسلوب نثرنگار ان دنوں لندن میں مقیم ہے۔ اردو نثر نے ایسے معجزے کم دیکھے ہیں۔ اور ان معجزوں میں کچھ حصہ مغرب ژرف نگاہی بلکہ ژرف نگاری کا بھی ہے۔ عہدِ جدید کی دین ہے ہمہ جہتی انداز۔ ذرا سی بات میں ہزاروں نت نئے پہلو پیدا کرنا اور اس کے ذریعے ہر سمت میں تخیل کے دروازے کھولنا۔ اور یہی کیفیت ہے مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کی جنہیں صرف مزاح نگاری کے ضمن میں رکھ کر فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں آگہی اور بصیرت ہی نہیں ، ادبی اسلوب کی رمز شناسی اور تہہ داری بھی موجود ہے۔
- ڈاکٹر محمد حسن

یوسفی کی جس ادا پر میں بطورِ خاص فریفتہ ہوں ، وہ ہے اس کی اتھاہ محبت۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت ، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں ۔۔۔۔
یوسفی دور مار توپ ہیں۔ مگر اس توپ کا گولہ بھی کسی نہ کسی سماجی برائی پر جا کر پڑتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ کشتوں کے پشتے نہیں لگاتے۔ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
- سید ضمیر جعفری

یوسفی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چُپ ہو جاتا ہے۔ اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
- ڈاکٹر نورالحسن نقوی

ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔
- ڈاکٹر ظہیر فتح پوری


(آبِ گم)

No comments:

تبصرہ کیجئے ۔۔۔