8.4.09

فارسی اشعار ۔۔۔

سچ تو یہ ہے کہ فارسی شعر کی مار آج کل کے قاری سے سہی نہیں جاتی۔ بالخصوص اس وقت جب وہ بےمحل بھی ہو۔
مولانا ابوالکلام آزاد تو نثر کا آرائشی فریم صرف اپنے پسندیدہ فارسی شعر ٹانگنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اشعار بےمحل نہیں ہوتے ، ملحقہ نثر بےمحل ہوتی ہے۔ وہ اپنی نثر کا تمام تر ریشمی کوکون (کویا) اپنے گاڑھے گاڑھے لعابِ ذہن سے فارسی شعر کے گرد بنتے ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ ریشم حاصل کرنے کا زمانۂ قدیم سے ایک ہی طریقہ چلا آتا ہے۔ کوئے کو ریشم کے زندہ کیڑے سمیت کھولتے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب تک وہ مر نہ جائے ، ریشم ہاتھ نہیں لگتا۔

مرزا کہتے ہیں کہ کلامِ غالب کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں۔ وہ نہ ہوں تو غالب کا سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزا دیتا ہے۔

ایک دفعہ میں نے منظور الٰہی صاحب سے عرض کیا :
آپ نے اپنی دونوں کتابوں میں فارسی کے نہایت خوبصورت اشعار نقل کیے ہیں۔ لیکن میری طرح قارئین کی نئی نسل بھی فارسی سے نابلد ہے۔ یونہی شد بد اور اٹکل سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مطلب فوت ہو جاتا ہے۔ اگر اگلے ایڈیشن میں بریکٹ میں ان کا مطلب اردو میں بیان کردیں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

سوچ میں پڑ گئے۔ پھر آنکھیں بند کر کے ، بند ہونٹوں سے اپنے دلآویز انداز میں مسکرائے۔ فرمایا :
مگر بھائی صاحب ، پھر مقصد فوت ہو جائے گا !

(آبِ گم)

No comments:

تبصرہ کیجئے ۔۔۔