سچ تو یہ ہے کہ جہاں چارپائی ہو ، وہاں کسی فرنیچر کی ضرورت ، نہ گنجائش نہ تُک۔ انگلستان کا موسم اگر اتنا ذلیل نہ ہوتا اور انگریزوں نے بروقت چارپائی ایجاد کر لی ہوتی تو نہ صرف یہ کہ وہ موجودہ فرنیچر کی کھکھیڑ سے بچ جاتے ، بلکہ پھر آرام دہ چارپائی چھوڑ کر ، کالونیز بنانے کی خاطر ، گھر سے باہر نکلنے کو بھی ان کا دل نہ چاہتا۔ "اوور ورکڈ" سورج بھی ان کی سلطنت پر ایک صدی تک ہمہ وقت چمکتے رہنے کی ڈیوٹی سے بچ جاتا۔ اور کم از کم آج کل کے حالات میں اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ رہنے کے لیے ان کے گھر میں کوئی ڈھنگ کی چیز تو ہوتی۔
ہم نے ایک دن پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم-اے ، بی-ٹی سے کہا کہ بقول آپ کے ، انگریز تمام ایجادات کے موجد ہیں۔ آسائش پسند ، بےحد پریکٹکل لوگ ہیں۔ حیرت ہے چارپائی استعمال نہیں کرتے!
بولے:
ادوان کسنے سے جان چراتے ہیں!
راقم الحروف کے خیال میں ، ایک بنیادہ فرق ذہن میں ضرور رکھنا چاہئے۔ وہ یہ کہ یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لئے ہوتا ہے ، جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہیں نہیں جس پر لیٹ نہ سکیں۔
مثال میں دری ، گدیلے ، قالین ، جازم ، چاندنی ، چارپائی ، کوچۂ یار اور پہلوئے دلدار کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
ایک چیز ہمارے ہاں البتہ ایسی تھی جسے صرف بیٹھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے حکمرانوں کا تخت کہتے تھے۔ لیکن جب انہیں اسی پر لٹکا کر اور پھر لٹا کر نہلا دیا جاتا تو یہ تختہ کہلاتا تھا اور اس عمل کو تختہ الٹنا کہتے تھے۔
(آبِ گم)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
تبصرہ کیجئے ۔۔۔