27.6.09

نہ ہوں حیراں میرے قہقہوں پر مہرباں میرے

۔۔۔ اور مزاح نگاروں نے کئی خاکے لکھے اور خوب لکھے۔ لیکن جتنے خاکے لکھے وہ خواص پر لکھے۔ ہم جیسے عام آدمی کو کبھی گھاس نہیں ڈالی۔
مشتاق احمد یوسفی کا ہر مضمون ہم جیسے ایک عام آدمی کا ایسا خاکہ ہے جس میں کروڑوں انسانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری تہذیب اور ثقافت کی تصویر ملتی ہے۔
یوسفی صاحب کو نفسیاتِ انسانی اور جذباتِ انسانی کا مکمل شعور ہے ، اس لیے جب وہ کسی کیرکٹر کو پیش کرتے ہیں تو ہر شخص کو اس کیرکٹر میں اپنا عکس ضرور دکھائی دیتا ہے۔

یاد رہے مزاح نہ لطیفہ گوئی ہے ، نہ تضحیک نہ طنز۔ مزاح وہی مزاح ہے جو بظاہر تو ہلکی پھلکی لطافت اور ظرافت میں ڈوبی تحریر لگے لیکن قاری کو لطیفے پر قہقہہ لگا کر بھول جانے کے بجائے یکلخت اس تحریر کی گہرائی میں جا کر سنجیدگی سے اپنے آپ کا جائزہ لینے پر مجبور کر دے۔ ردِّ عمل بجلی کی چمک کی طرح ذہن میں اس طرح کوندے کہ اسے لگے کہ کسی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
مزاح کے اس معیار پر جب ہم مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی مزاح کی معراج پر ہیں !

جو تحریریں مزاح کے اس معیار پر پورا نہیں اترتیں وہ پھکڑ پن ، لطیفوں ، پھبکیوں اور فقرہ بازیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان میں طنز ، تحقیر ، تضحیک ، رکیک وغیرہ تو ہوتا ہے ، مزاح پیدا نہیں ہو سکتا۔
یوسفی صاحب کے فن کا کمال یہ ہے کہ وہ طنز یا تحقیر نہیں برتتے۔ یوں بھی جہاں مزاح بھرپور ہو وہاں طنز کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ پختہ مزاح بذاتِ خود بہت بڑا طنز ہے جو معاشرے کی ہر بےراہ روی کو بےنقاب کر دیتا ہے۔ لیکن عہدِ حاضر میں اس حقیقی فن کا فقدان ہے۔
جیسا کہ یوسفی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں :
"اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن ترقی نہ کر سکا"۔

حفیظ میرٹھی کہتے ہیں کہ :
نہ ہوں حیراں میرے قہقہوں پر مہرباں میرے
فقط فریاد کا معیار اونچا کر لیا میں نے

مزاح وہی ہے جو قہقہوں یا مسکراہٹ کے پس پردہ ہو۔ یوسفی صاحب طنز کو شامل کر کے مضمون کو خشکی اور کڑواہٹ سے دور رکھتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ :
اگر طعن و تشنیع سے مسئلے حل ہو جاتے تو بارود ایجاد نہ ہوتی !
چونکہ مزاح کے میدان میں اکثریت ان ادیبوں کی ہے جو طنز کو کثرت سے استعمال کرتے ہیں اس لیے مزاح کی اہمیت و افادیت سے قارئین کی اکثریت اب بھی ناواقف ہے۔


اقتباس :
بارے مشتاق احمد یوسفی کے - علیم خان فلکی (جدہ)

28.5.09

لکڑمنڈی اور ریلوے اسٹیشن

۔۔۔ کوئی شخص ایسا نظر آ جائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑمنڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے۔
بیشتر گاہک گرد ونواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔
ایک: اپنا گھر بناتے وقت
دوسرے : اپنا کریا کرم کرواتے سمے

قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے، وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔

1945ء میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رُکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا ، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں اَدھر اُٹھا لیا۔ اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھا دیا۔
لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خود بخود ڈبے سے باہر نکل پڑے ، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہو گیا۔
دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون ، سفید قمیص ، سفید رومال ، سفید کینوس کے جوتے ، سفید موزے ، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ:
چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔
ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔
یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں، بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔
مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلی اور یو-پی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے ، مستورات ، کثرتِ اطفال اور قیمے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ۔۔۔۔
"السلام علیکم Brother in Islam"
کہہ کر لپٹ جاتے۔
مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کر سکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا ، اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کر کے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کر لیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجا دیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمربند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا ، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راؤنڈ میں ایک تگڑا سا تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے tug of war کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کے لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگے کے چِرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہو جاتا۔

(آبِ گم)

*****
نوٹ:
اس دفعہ غلطی سے گوگل چیکنگ سے قبل یہ مواد کمپوز کر لیا تھا۔ بعد کو اردو محفل پر چیک کیا تو یہی مواد یہاں پہلے ہی سے کمپوز شدہ نکلا۔

13.4.09

اردو مزاح کا عہدِ یوسفی

اگر مزاحی ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے۔
- ابن انشاء

طنز و مزاح نے تو مشتاق یوسفی کی تحریروں میں انتہائی عروج کی منزل طے کر لی جو شاید اردو ادب کو میسر ہو سکتی تھی۔ یوسفی کی رسائی اردو نثر کی معراج تک ہوئی ہے۔ اور یہ معراج نثرنگاری کی معراج بھی ہے اور طنز و مزاح کی بھی کہ اسے عالمی ادب کے سامنے فخر و انبساط سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ عصر حاضر کا عظیم ترین صاحبِ اسلوب نثرنگار ان دنوں لندن میں مقیم ہے۔ اردو نثر نے ایسے معجزے کم دیکھے ہیں۔ اور ان معجزوں میں کچھ حصہ مغرب ژرف نگاہی بلکہ ژرف نگاری کا بھی ہے۔ عہدِ جدید کی دین ہے ہمہ جہتی انداز۔ ذرا سی بات میں ہزاروں نت نئے پہلو پیدا کرنا اور اس کے ذریعے ہر سمت میں تخیل کے دروازے کھولنا۔ اور یہی کیفیت ہے مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کی جنہیں صرف مزاح نگاری کے ضمن میں رکھ کر فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں آگہی اور بصیرت ہی نہیں ، ادبی اسلوب کی رمز شناسی اور تہہ داری بھی موجود ہے۔
- ڈاکٹر محمد حسن

یوسفی کی جس ادا پر میں بطورِ خاص فریفتہ ہوں ، وہ ہے اس کی اتھاہ محبت۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت ، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں ۔۔۔۔
یوسفی دور مار توپ ہیں۔ مگر اس توپ کا گولہ بھی کسی نہ کسی سماجی برائی پر جا کر پڑتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ کشتوں کے پشتے نہیں لگاتے۔ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
- سید ضمیر جعفری

یوسفی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چُپ ہو جاتا ہے۔ اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
- ڈاکٹر نورالحسن نقوی

ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔
- ڈاکٹر ظہیر فتح پوری


(آبِ گم)

12.4.09

"ب و س ہ‫"

بشارت کے ایک افسانے کا کلائمکس کچھ اس طرح تھا ‫:

انجم آرا کی حسن آفرینیوں ، سحر انگیزیوں اور حشر سامانیوں سے مشام جان معطر تھا۔ وہ لغزیدہ لغزیدہ قدموں سے آگے بڑھی اور فرطِ حیا سے اپنی اطلسی بانہوں کو اپنی ہی دزویدہ دزویدہ آنکھوں پر رکھا۔ سلیم نے انجم آرا کے دستِ حنائی کو اپنے آہنی ہاتھ میں لے کر پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی ہیرا تراش کلائی اور ساقِ بلوریں کو دیکھا اور گلنار سے لبوں پر ۔۔۔۔ چار نقطے ثبت کر دیے۔

بشارت گن کر اتنے ہی نقطے لگاتے جن کی اجازت اُس وقت کے حالات ، حیا یا ہیروئین نے دی ہو۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں انجمن ترقی اردو کے رسالے میں ایک مضمون چھپا تھا۔ اس میں جہاں جہاں لفظ "بوسہ" آیا ، وہاں مولوی عبدالحق نے ، بربنائے تہذیب اس کے ہجے یعنی "ب و س ہ" چھاپ کر اُلٹا اس کی لذت و طوالت میں اضافہ فرما دیا۔
یہاں ہمیں اُن کا یا اپنے حبیبِ لبیب کی طرزِ نگارش کا مذاق اُڑانا مقصود نہیں۔ ہر زمانے کا اپنا اسلوب اور آہنگ ہوتا ہے۔ لفظ کبھی انگرکھا ، کبھی عبا و عمامہ ، کبھی ڈنر جیکٹ یا فُولس کیپ ، کبھی پیر میں پائل یا بیڑی پہنے نظر آتے ہیں۔ اور کبھی کوئی مداری اپنی قاموسی ڈگڈگی بجاتا ہے تو لفظوں کے سدھے سدھائے بندر ناچنے لگتے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سنِ پیدائش اس طرح بتاتے ہیں ‫:
یہ غریب الدیارِ عہد ، ناآشنائے عصر ، بیگانۂ خویش ، نمک پروردۂ ریش ، خرابۂ حسرت کہ موسوم بہ احمد ، مدعو بابی الکلام 1888ء مطابق ذو الحجہ 1305ھ میں ہستیِ عدم سے اس عدمِ ہستی میں وارد ہوا اور تہمتِ حیات سے متہم۔

اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت ، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔

اسی طرح نوطرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے ‫:
جب ماہتابِ عمر میرے کا بدرجہ چہاردہ سالگی کے پہنچا ، روزِ روشنِ ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شبِ یلدہ سے ہوا ، یعنی پیمانۂ عمر و زندگانی مادر و پدرِ بزرگوار حظوظِ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دستِ قضا سے دہلا۔
کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ : جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہو گیا۔
مرزا عبدالودود بیگ نے ایسے ‫pompous style کے لیے سبکِ ہندی کی طرز پر ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے: طرز اسطوخودّوس

( آبِ گم )

11.4.09

یوسفی کی مزاح نگاری - یونیکوڈ کمپوزنگ

انٹرنیٹ کی اردو کمیونیٹی کے مقبولِ عام اور اولین فورم اردو محفل پر کچھ عرصہ قبل مشتاق احمد یوسفی کی تمام کتب کی یونیکوڈ کمپوزنگ کی مہم شروع ہوئی تھی۔
ابھی اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ یہ کام کتنے فیصد تکمیل پایا؟

بہرحال جتنا کچھ مواد اِس وقت اردو محفل پر یونیکوڈ اردو کی شکل میں محفوظ ہے ، اس کے روابط ذیل میں دئے جا رہے ہیں :

چراغ تلے

آبِ گم ۔۔۔۔غنودیم غنودیم

آبِ گم (حویلی)

آبِ گم (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ)

آبِ گم (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ)

آبِ گُم - شہر دو قصہ

آب ِ گُم ( کار ، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ )
حصہ : 1
حصہ : 2

**********
بشکریہ :
اردو محفل فورم > ڈیجیٹل اردو لائبریری پراجیکٹ > اردو نثر > مزاح نگاری

یوسفی - مختصر مختصر ۔۔۔

آپ کی پیدائش ضلع ٹونک (راجستھان ، انڈیا) کی ہے۔ سن پیدائش : 1923ء
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم-اے (فلاسفی) اور ایل-ایل-بی کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
تقسیمِ ہند پر کراچی چلے آئے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے 1999ء میں دو نمایاں اعزازات ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ اور بینکاری میں آپ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے پیش نظر قائد اعظم میموریل میڈل عطا کیا گیا۔

اب تک آپ کی چار کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔
چراغ تلے {1961ء}
خاکم بدہن {1969ء}
زر گزشت {1976ء}
آبِ گُم {1990ء}

آن لائن مطالعہ :
مشتاق احمد یوسفی - اردو وکی پیڈیا

مشتاق احمد یوسفی - انگریزی وکی پیڈیا

اقتباساتِ یوسفی - یوٹیوب ویڈیو

یوٹیوب پر مشتاق احمد یوسفی

اردو منزل پر مشتاق احمد یوسفی (مختلف مضامین / تجزیے)

مشتاق احمد یوسفی کی چٹ پٹی تقریر (MP3 ڈاؤن لوڈ)

مشتاق احمد یوسفی کا فن - پروفیسر خالد سعید

چراغ تلے کا فن - وکی پیڈیا پر

مرحومِ خصوصی

برصغیر کے بعض پسماندہ علاقوں میں اب تک یہ دستور چلا آرہا ہے کہ برادری کی تمام بوڑھیاں کسی کے ہاں غمی میں شریک ہوتی ہیں تو لمبا سا گھونگھٹ کاڑھ کے بیٹھ جاتی ہیں اور اپنے اپنے پیاروں کے نام لے کر بین کرتی دھاڑتی ہیں۔ سب اپنے اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کرکے خشک آنسوؤں سے روتی ہیں۔ اگر کوئی ناواقفِ حال پہنچ جائے تو وہ ایک گھنٹے بین سن کر بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس مجلسِ آہ و بکا میں دو ڈھائی سو مردوں میں آج کا مرحومِ خصوصی کون ہے؟


بشکریہ : Barbie Doll Jiya - FrienksKorner urdu forum

چارپائی

سچ تو یہ ہے کہ جہاں چارپائی ہو ، وہاں کسی فرنیچر کی ضرورت ، نہ گنجائش نہ تُک۔ انگلستان کا موسم اگر اتنا ذلیل نہ ہوتا اور انگریزوں نے بروقت چارپائی ایجاد کر لی ہوتی تو نہ صرف یہ کہ وہ موجودہ فرنیچر کی کھکھیڑ سے بچ جاتے ، بلکہ پھر آرام دہ چارپائی چھوڑ کر ، کالونیز بنانے کی خاطر ، گھر سے باہر نکلنے کو بھی ان کا دل نہ چاہتا۔ "اوور ورکڈ" سورج بھی ان کی سلطنت پر ایک صدی تک ہمہ وقت چمکتے رہنے کی ڈیوٹی سے بچ جاتا۔ اور کم از کم آج کل کے حالات میں اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ رہنے کے لیے ان کے گھر میں کوئی ڈھنگ کی چیز تو ہوتی۔
ہم نے ایک دن پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم-اے ، بی-ٹی سے کہا کہ بقول آپ کے ، انگریز تمام ایجادات کے موجد ہیں۔ آسائش پسند ، بےحد پریکٹکل لوگ ہیں۔ حیرت ہے چارپائی استعمال نہیں کرتے!
بولے:
ادوان کسنے سے جان چراتے ہیں!
راقم الحروف کے خیال میں ، ایک بنیادہ فرق ذہن میں ضرور رکھنا چاہئے۔ وہ یہ کہ یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لئے ہوتا ہے ، جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہیں نہیں جس پر لیٹ نہ سکیں۔
مثال میں دری ، گدیلے ، قالین ، جازم ، چاندنی ، چارپائی ، کوچۂ یار اور پہلوئے دلدار کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
ایک چیز ہمارے ہاں البتہ ایسی تھی جسے صرف بیٹھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے حکمرانوں کا تخت کہتے تھے۔ لیکن جب انہیں اسی پر لٹکا کر اور پھر لٹا کر نہلا دیا جاتا تو یہ تختہ کہلاتا تھا اور اس عمل کو تختہ الٹنا کہتے تھے۔

(آبِ گم)

8.4.09

فارسی اشعار ۔۔۔

سچ تو یہ ہے کہ فارسی شعر کی مار آج کل کے قاری سے سہی نہیں جاتی۔ بالخصوص اس وقت جب وہ بےمحل بھی ہو۔
مولانا ابوالکلام آزاد تو نثر کا آرائشی فریم صرف اپنے پسندیدہ فارسی شعر ٹانگنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اشعار بےمحل نہیں ہوتے ، ملحقہ نثر بےمحل ہوتی ہے۔ وہ اپنی نثر کا تمام تر ریشمی کوکون (کویا) اپنے گاڑھے گاڑھے لعابِ ذہن سے فارسی شعر کے گرد بنتے ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ ریشم حاصل کرنے کا زمانۂ قدیم سے ایک ہی طریقہ چلا آتا ہے۔ کوئے کو ریشم کے زندہ کیڑے سمیت کھولتے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب تک وہ مر نہ جائے ، ریشم ہاتھ نہیں لگتا۔

مرزا کہتے ہیں کہ کلامِ غالب کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں۔ وہ نہ ہوں تو غالب کا سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزا دیتا ہے۔

ایک دفعہ میں نے منظور الٰہی صاحب سے عرض کیا :
آپ نے اپنی دونوں کتابوں میں فارسی کے نہایت خوبصورت اشعار نقل کیے ہیں۔ لیکن میری طرح قارئین کی نئی نسل بھی فارسی سے نابلد ہے۔ یونہی شد بد اور اٹکل سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مطلب فوت ہو جاتا ہے۔ اگر اگلے ایڈیشن میں بریکٹ میں ان کا مطلب اردو میں بیان کردیں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

سوچ میں پڑ گئے۔ پھر آنکھیں بند کر کے ، بند ہونٹوں سے اپنے دلآویز انداز میں مسکرائے۔ فرمایا :
مگر بھائی صاحب ، پھر مقصد فوت ہو جائے گا !

(آبِ گم)

7.4.09

یہ لندن ہے

یوں لندن بہت دلچسپ جگہ ہے !
اس کے علاوہ بظاہر اور کوئی خرابی نظر نہیں آتی کہ غلط جگہ واقع ہوا ہے ۔ تھوڑی سی بےآرامی ضرور ہے۔ مثلاً مطلع ہمہ وقت ابر وکہرآلود رہتا ہے۔ صبح اور شام میں تمیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے لوگ A.M اور P.M بتانے والی ڈائل کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔
موسم ایسا جیسے کسی کے دل میں بغض بھرا ہو۔
گھر اتنے چھوٹے اور گرم کہ محسوس ہوتا ہے کمرہ اوڑھے پڑے ہیں۔
پھر بقول ملک الشعرا فلپ لارکن یہ کیسی مجبوری کہ :
Nowhere to go but indoors‪!
روشن پہلو یہ کہ شائستگی ، رواداری اور بردباری میں انگریزوں کا جواب نہیں۔ مذہب ، سیاست اور سیکس پر کسی اور کیسی بھی محفل میں گفتگو کرنا خلافِ تہذیب اور انتہائی معیوب سمجھتے ہیں ۔۔۔ سوائے پَب (شراب خانہ) اور بار کے!
گمبھیر اور نازک مسائل پر صرف نشے کی حالت میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔
بےحد خوش اطوار اور ہمدرد۔ کار والے اتنے خوش اخلاق کہ اکلوتے پیدل چلنے والے کو راستہ دینے کے لیے اپنی اور دوسروں کی راہ کھوٹی کر کے سارا ٹریفک روک دیتے ہیں۔

برطانیہ میں رہنے والے ایشیائیوں میں سو میں سے ننانوے ان خوبصورت درختوں کے نام نہیں بتا سکتے جو ان کے مکانوں کے سامنے نہ جانے کب سے کھڑے ہیں۔
(رہا سواں آدمی ، سو اس نے درختوں کو کبھی نوٹس ہی نہیں کیا)
نہ ان رنگ برنگے پرندوں کے نام جو منہ اندھیرے اور شام ڈھلے ان پر چہچہاتے ہیں۔
اور نہ اس گرل فرینڈ کے بالوں کا شیڈ بتا سکتے ہیں جس کے ساتھ رات بھر بڑی روانی سے غلط انگریزی بولی ۔۔۔
گولڈن آبرن ، کاپر آبرن ، ایش بلانڈ ، چیسٹ نٹ براؤن ، ہیزل براؤن ، برگنڈی براؤن ؟ ۔۔۔ کچھ معلوم نہیں۔
ان کی خیرہ نگاہیں تو ، جو کچھ بھی ہو خدا کی قسم لاجواب ہو ، کے فلمی مقام پر آ کر ٹھہر جاتی ہیں۔


(آبِ گم)

حرف کشی / مصوری

ڈرائینگ ماسٹر کہتا تھا کہ :
تم اپنا نام اتنی محبت اور محنت سے لکھتے ہو اور تمہاری lettering (حرف کشی) اتنی خوبصورت ہے کہ تمہیں فیل کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اگر تم اسکیچ کے نیچے یہ نہ لکھو کہ "یہ انگور کی بیل ہے" تو تمہیں گھڑونچی بنانے کے سو میں سے سو نمبر ملیں گے۔

(آبِ گم)

خانساماں کی تلاش میں ۔۔۔

کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے "عوضی مالک" پیش کرنا پڑے گا۔

کافی رد و کد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔
کہنے لگے: " صاحب! اُن کی بات چھوڑیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!"
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا ۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔
ہم نے گھبرا کر پوچھا " پھر کیا کروگے؟ "
" یہ تو آپ بتائیے ۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔"

جب سب باتیں حسب منشا و ضرورت ( ضرورت ہماری ، منشا ان کی) طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا لانے کے لیے فی الحال کوئی علٰحدہ نوکر نہیں ہے ۔ اس لیے کچھ دن تمھیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کر لو۔

فرمایا " جناب ! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔"
" پھر بھی ؟"
کہنے لگے " پچھتر روپے ماہوار ہوگی۔ لیکن اگر سودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہوگی ! "

طنز و مزاح نگار

مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ اس کی فاش سے فاش غلطی کے بارے میں بھی پڑھنے والے کو یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ ممکن ہے ، اس میں بھی تفنن کا کوئی لطیف پہلو پوشیدہ ہو ، جو غالباً موسم کی خرابی کے باعث اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔

مشتاق احمد یوسفی - طنز و مزاح کا مینارِ عظیم

یہ موضوعاتی بلاگ ، مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں سے اخذ کردہ منفرد ، متنوع اور لازوال شہ پاروں سے مزین کیا جائے گا !

اردو کے جس کسی قاری نے مشتاق احمد یوسفی کو اب تک نہیں پڑھا، اس نے گویا عصرِ حاضر کے اردو ادب کی صنف طنز و مزاح سے کچھ بھی نہیں پڑھا !

اشفاق احمد درک ۔۔۔۔ نے مشتاق احمد یوسفی اور ان کے فن کا مختصر اور بہترین تعارف جس دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے ، وہ یہاں ملاحظہ فرمائیں :

1 : اس نے اردو مزاح کو اس مشکل مقام پر پہنچا دیا ہے جس سے آگے لے جانا کسی دوسرے مزاح نگار تو کیا اس کے اپنے بس میں بھی نہیں۔ میرا دوست مسٹرانوتو تو یہاں تک کہتا ہے کہ یہ کتابیں اس کی اپنی لکھی ہوئی ہی نہیں ہیں جس کا جواز اس کے پاس یہ ہے کہ اگر یہ کتابیں ملزم مصنف نے خود لکھی ہیں تو ایسی دو تین کتابیں اور لکھ کے دکھائے۔

2 : اس نے بعض شعراء کے متعدد اشعار اور مصرعوں کو ہلکے سے ردوبدل سے اپنی تحریروں میں یوں استعمال کیا ہے کہ اب وہ اشعار اور مصرعے اصل شعرا کے معلوم ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ بعض مصرعوں کو تو جوں کا توں قبضے میں لے لیا ہے۔
ایک مثال دیکھئے۔
بینک میں لکھتے سب انگریزی میں تھے ، گفتگو اردو میں ، لیکن گالی ہر شخص اپنی مادری زبان میں ہی دیتا:
زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

یہ مصرع جب بھی سنیں گے آتش یاد آئے نہ آئے، مشتاق یوسفی ضرور یاد آئے گا یعنی چوری اور دماغ زوری۔

3 : اس نے اردو زبان کے محاورات، ضرب الامثال اور روز مروں کو اس مہارت سے بگاڑا ہے کہ اب وہ اپنی اصلی شکل میں مزا ہی نہیں دیتے۔

4 : اس نے بعض نامور لکھنے والوں کے اسالیب کو نہایت چالاکی سے گھلا ملا کر ایک ملغوبہ تیار کیا اور اسے کئی آشتہ کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا۔

5 : اس نے قارئین کو اپنی تحریروں کے ذریعے ایسا نشہ فراہم کیا ہے کہ جو بندہ ان کو سمجھ کے پڑھ یا پڑھ کر سمجھ لیتا ہے اس کا کسی اور مزاحیہ تحریر میں دل ہی نہیں لگتا۔

6 : لوگ اس کی کتابیں اتنی بے دردی سے خرید اور بیچ رہے ہیں جس سے کئی دوسرے لکھنے والوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔

**********
بلاگ خالق : باذوق {baazauq [@] gmail.com}