اگر مزاحی ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے۔
- ابن انشاء
طنز و مزاح نے تو مشتاق یوسفی کی تحریروں میں انتہائی عروج کی منزل طے کر لی جو شاید اردو ادب کو میسر ہو سکتی تھی۔ یوسفی کی رسائی اردو نثر کی معراج تک ہوئی ہے۔ اور یہ معراج نثرنگاری کی معراج بھی ہے اور طنز و مزاح کی بھی کہ اسے عالمی ادب کے سامنے فخر و انبساط سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ عصر حاضر کا عظیم ترین صاحبِ اسلوب نثرنگار ان دنوں لندن میں مقیم ہے۔ اردو نثر نے ایسے معجزے کم دیکھے ہیں۔ اور ان معجزوں میں کچھ حصہ مغرب ژرف نگاہی بلکہ ژرف نگاری کا بھی ہے۔ عہدِ جدید کی دین ہے ہمہ جہتی انداز۔ ذرا سی بات میں ہزاروں نت نئے پہلو پیدا کرنا اور اس کے ذریعے ہر سمت میں تخیل کے دروازے کھولنا۔ اور یہی کیفیت ہے مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کی جنہیں صرف مزاح نگاری کے ضمن میں رکھ کر فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں آگہی اور بصیرت ہی نہیں ، ادبی اسلوب کی رمز شناسی اور تہہ داری بھی موجود ہے۔
- ڈاکٹر محمد حسن
یوسفی کی جس ادا پر میں بطورِ خاص فریفتہ ہوں ، وہ ہے اس کی اتھاہ محبت۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت ، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں ۔۔۔۔
یوسفی دور مار توپ ہیں۔ مگر اس توپ کا گولہ بھی کسی نہ کسی سماجی برائی پر جا کر پڑتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ کشتوں کے پشتے نہیں لگاتے۔ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
- سید ضمیر جعفری
یوسفی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چُپ ہو جاتا ہے۔ اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
- ڈاکٹر نورالحسن نقوی
ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔
- ڈاکٹر ظہیر فتح پوری
(آبِ گم)
13.4.09
12.4.09
"ب و س ہ"
بشارت کے ایک افسانے کا کلائمکس کچھ اس طرح تھا :
انجم آرا کی حسن آفرینیوں ، سحر انگیزیوں اور حشر سامانیوں سے مشام جان معطر تھا۔ وہ لغزیدہ لغزیدہ قدموں سے آگے بڑھی اور فرطِ حیا سے اپنی اطلسی بانہوں کو اپنی ہی دزویدہ دزویدہ آنکھوں پر رکھا۔ سلیم نے انجم آرا کے دستِ حنائی کو اپنے آہنی ہاتھ میں لے کر پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی ہیرا تراش کلائی اور ساقِ بلوریں کو دیکھا اور گلنار سے لبوں پر ۔۔۔۔ چار نقطے ثبت کر دیے۔
بشارت گن کر اتنے ہی نقطے لگاتے جن کی اجازت اُس وقت کے حالات ، حیا یا ہیروئین نے دی ہو۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں انجمن ترقی اردو کے رسالے میں ایک مضمون چھپا تھا۔ اس میں جہاں جہاں لفظ "بوسہ" آیا ، وہاں مولوی عبدالحق نے ، بربنائے تہذیب اس کے ہجے یعنی "ب و س ہ" چھاپ کر اُلٹا اس کی لذت و طوالت میں اضافہ فرما دیا۔
یہاں ہمیں اُن کا یا اپنے حبیبِ لبیب کی طرزِ نگارش کا مذاق اُڑانا مقصود نہیں۔ ہر زمانے کا اپنا اسلوب اور آہنگ ہوتا ہے۔ لفظ کبھی انگرکھا ، کبھی عبا و عمامہ ، کبھی ڈنر جیکٹ یا فُولس کیپ ، کبھی پیر میں پائل یا بیڑی پہنے نظر آتے ہیں۔ اور کبھی کوئی مداری اپنی قاموسی ڈگڈگی بجاتا ہے تو لفظوں کے سدھے سدھائے بندر ناچنے لگتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سنِ پیدائش اس طرح بتاتے ہیں :
یہ غریب الدیارِ عہد ، ناآشنائے عصر ، بیگانۂ خویش ، نمک پروردۂ ریش ، خرابۂ حسرت کہ موسوم بہ احمد ، مدعو بابی الکلام 1888ء مطابق ذو الحجہ 1305ھ میں ہستیِ عدم سے اس عدمِ ہستی میں وارد ہوا اور تہمتِ حیات سے متہم۔
اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت ، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح نوطرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے :
جب ماہتابِ عمر میرے کا بدرجہ چہاردہ سالگی کے پہنچا ، روزِ روشنِ ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شبِ یلدہ سے ہوا ، یعنی پیمانۂ عمر و زندگانی مادر و پدرِ بزرگوار حظوظِ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دستِ قضا سے دہلا۔
کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ : جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہو گیا۔
مرزا عبدالودود بیگ نے ایسے pompous style کے لیے سبکِ ہندی کی طرز پر ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے: طرز اسطوخودّوس
( آبِ گم )
انجم آرا کی حسن آفرینیوں ، سحر انگیزیوں اور حشر سامانیوں سے مشام جان معطر تھا۔ وہ لغزیدہ لغزیدہ قدموں سے آگے بڑھی اور فرطِ حیا سے اپنی اطلسی بانہوں کو اپنی ہی دزویدہ دزویدہ آنکھوں پر رکھا۔ سلیم نے انجم آرا کے دستِ حنائی کو اپنے آہنی ہاتھ میں لے کر پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی ہیرا تراش کلائی اور ساقِ بلوریں کو دیکھا اور گلنار سے لبوں پر ۔۔۔۔ چار نقطے ثبت کر دیے۔
بشارت گن کر اتنے ہی نقطے لگاتے جن کی اجازت اُس وقت کے حالات ، حیا یا ہیروئین نے دی ہو۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں انجمن ترقی اردو کے رسالے میں ایک مضمون چھپا تھا۔ اس میں جہاں جہاں لفظ "بوسہ" آیا ، وہاں مولوی عبدالحق نے ، بربنائے تہذیب اس کے ہجے یعنی "ب و س ہ" چھاپ کر اُلٹا اس کی لذت و طوالت میں اضافہ فرما دیا۔
یہاں ہمیں اُن کا یا اپنے حبیبِ لبیب کی طرزِ نگارش کا مذاق اُڑانا مقصود نہیں۔ ہر زمانے کا اپنا اسلوب اور آہنگ ہوتا ہے۔ لفظ کبھی انگرکھا ، کبھی عبا و عمامہ ، کبھی ڈنر جیکٹ یا فُولس کیپ ، کبھی پیر میں پائل یا بیڑی پہنے نظر آتے ہیں۔ اور کبھی کوئی مداری اپنی قاموسی ڈگڈگی بجاتا ہے تو لفظوں کے سدھے سدھائے بندر ناچنے لگتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سنِ پیدائش اس طرح بتاتے ہیں :
یہ غریب الدیارِ عہد ، ناآشنائے عصر ، بیگانۂ خویش ، نمک پروردۂ ریش ، خرابۂ حسرت کہ موسوم بہ احمد ، مدعو بابی الکلام 1888ء مطابق ذو الحجہ 1305ھ میں ہستیِ عدم سے اس عدمِ ہستی میں وارد ہوا اور تہمتِ حیات سے متہم۔
اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت ، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح نوطرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے :
جب ماہتابِ عمر میرے کا بدرجہ چہاردہ سالگی کے پہنچا ، روزِ روشنِ ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شبِ یلدہ سے ہوا ، یعنی پیمانۂ عمر و زندگانی مادر و پدرِ بزرگوار حظوظِ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دستِ قضا سے دہلا۔
کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ : جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہو گیا۔
مرزا عبدالودود بیگ نے ایسے pompous style کے لیے سبکِ ہندی کی طرز پر ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے: طرز اسطوخودّوس
( آبِ گم )
موضوعات:
کردار نگاری

11.4.09
یوسفی کی مزاح نگاری - یونیکوڈ کمپوزنگ
انٹرنیٹ کی اردو کمیونیٹی کے مقبولِ عام اور اولین فورم اردو محفل پر کچھ عرصہ قبل مشتاق احمد یوسفی کی تمام کتب کی یونیکوڈ کمپوزنگ کی مہم شروع ہوئی تھی۔
ابھی اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ یہ کام کتنے فیصد تکمیل پایا؟
بہرحال جتنا کچھ مواد اِس وقت اردو محفل پر یونیکوڈ اردو کی شکل میں محفوظ ہے ، اس کے روابط ذیل میں دئے جا رہے ہیں :
چراغ تلے
آبِ گم ۔۔۔۔غنودیم غنودیم
آبِ گم (حویلی)
آبِ گم (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ)
آبِ گم (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ)
آبِ گُم - شہر دو قصہ
آب ِ گُم ( کار ، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ )
حصہ : 1
حصہ : 2
**********
بشکریہ :
اردو محفل فورم > ڈیجیٹل اردو لائبریری پراجیکٹ > اردو نثر > مزاح نگاری
ابھی اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ یہ کام کتنے فیصد تکمیل پایا؟
بہرحال جتنا کچھ مواد اِس وقت اردو محفل پر یونیکوڈ اردو کی شکل میں محفوظ ہے ، اس کے روابط ذیل میں دئے جا رہے ہیں :
چراغ تلے
آبِ گم ۔۔۔۔غنودیم غنودیم
آبِ گم (حویلی)
آبِ گم (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ)
آبِ گم (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ)
آبِ گُم - شہر دو قصہ
آب ِ گُم ( کار ، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ )
حصہ : 1
حصہ : 2
**********
بشکریہ :
اردو محفل فورم > ڈیجیٹل اردو لائبریری پراجیکٹ > اردو نثر > مزاح نگاری
Subscribe to:
Posts (Atom)