27.6.09

نہ ہوں حیراں میرے قہقہوں پر مہرباں میرے

۔۔۔ اور مزاح نگاروں نے کئی خاکے لکھے اور خوب لکھے۔ لیکن جتنے خاکے لکھے وہ خواص پر لکھے۔ ہم جیسے عام آدمی کو کبھی گھاس نہیں ڈالی۔
مشتاق احمد یوسفی کا ہر مضمون ہم جیسے ایک عام آدمی کا ایسا خاکہ ہے جس میں کروڑوں انسانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری تہذیب اور ثقافت کی تصویر ملتی ہے۔
یوسفی صاحب کو نفسیاتِ انسانی اور جذباتِ انسانی کا مکمل شعور ہے ، اس لیے جب وہ کسی کیرکٹر کو پیش کرتے ہیں تو ہر شخص کو اس کیرکٹر میں اپنا عکس ضرور دکھائی دیتا ہے۔

یاد رہے مزاح نہ لطیفہ گوئی ہے ، نہ تضحیک نہ طنز۔ مزاح وہی مزاح ہے جو بظاہر تو ہلکی پھلکی لطافت اور ظرافت میں ڈوبی تحریر لگے لیکن قاری کو لطیفے پر قہقہہ لگا کر بھول جانے کے بجائے یکلخت اس تحریر کی گہرائی میں جا کر سنجیدگی سے اپنے آپ کا جائزہ لینے پر مجبور کر دے۔ ردِّ عمل بجلی کی چمک کی طرح ذہن میں اس طرح کوندے کہ اسے لگے کہ کسی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
مزاح کے اس معیار پر جب ہم مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی مزاح کی معراج پر ہیں !

جو تحریریں مزاح کے اس معیار پر پورا نہیں اترتیں وہ پھکڑ پن ، لطیفوں ، پھبکیوں اور فقرہ بازیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان میں طنز ، تحقیر ، تضحیک ، رکیک وغیرہ تو ہوتا ہے ، مزاح پیدا نہیں ہو سکتا۔
یوسفی صاحب کے فن کا کمال یہ ہے کہ وہ طنز یا تحقیر نہیں برتتے۔ یوں بھی جہاں مزاح بھرپور ہو وہاں طنز کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ پختہ مزاح بذاتِ خود بہت بڑا طنز ہے جو معاشرے کی ہر بےراہ روی کو بےنقاب کر دیتا ہے۔ لیکن عہدِ حاضر میں اس حقیقی فن کا فقدان ہے۔
جیسا کہ یوسفی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں :
"اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن ترقی نہ کر سکا"۔

حفیظ میرٹھی کہتے ہیں کہ :
نہ ہوں حیراں میرے قہقہوں پر مہرباں میرے
فقط فریاد کا معیار اونچا کر لیا میں نے

مزاح وہی ہے جو قہقہوں یا مسکراہٹ کے پس پردہ ہو۔ یوسفی صاحب طنز کو شامل کر کے مضمون کو خشکی اور کڑواہٹ سے دور رکھتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ :
اگر طعن و تشنیع سے مسئلے حل ہو جاتے تو بارود ایجاد نہ ہوتی !
چونکہ مزاح کے میدان میں اکثریت ان ادیبوں کی ہے جو طنز کو کثرت سے استعمال کرتے ہیں اس لیے مزاح کی اہمیت و افادیت سے قارئین کی اکثریت اب بھی ناواقف ہے۔


اقتباس :
بارے مشتاق احمد یوسفی کے - علیم خان فلکی (جدہ)

28.5.09

لکڑمنڈی اور ریلوے اسٹیشن

۔۔۔ کوئی شخص ایسا نظر آ جائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑمنڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے۔
بیشتر گاہک گرد ونواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔
ایک: اپنا گھر بناتے وقت
دوسرے : اپنا کریا کرم کرواتے سمے

قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے، وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔

1945ء میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رُکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا ، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں اَدھر اُٹھا لیا۔ اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھا دیا۔
لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خود بخود ڈبے سے باہر نکل پڑے ، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہو گیا۔
دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون ، سفید قمیص ، سفید رومال ، سفید کینوس کے جوتے ، سفید موزے ، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ:
چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔
ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔
یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں، بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔
مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلی اور یو-پی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے ، مستورات ، کثرتِ اطفال اور قیمے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ۔۔۔۔
"السلام علیکم Brother in Islam"
کہہ کر لپٹ جاتے۔
مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کر سکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا ، اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کر کے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کر لیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجا دیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمربند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا ، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راؤنڈ میں ایک تگڑا سا تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے tug of war کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کے لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگے کے چِرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہو جاتا۔

(آبِ گم)

*****
نوٹ:
اس دفعہ غلطی سے گوگل چیکنگ سے قبل یہ مواد کمپوز کر لیا تھا۔ بعد کو اردو محفل پر چیک کیا تو یہی مواد یہاں پہلے ہی سے کمپوز شدہ نکلا۔

13.4.09

اردو مزاح کا عہدِ یوسفی

اگر مزاحی ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے۔
- ابن انشاء

طنز و مزاح نے تو مشتاق یوسفی کی تحریروں میں انتہائی عروج کی منزل طے کر لی جو شاید اردو ادب کو میسر ہو سکتی تھی۔ یوسفی کی رسائی اردو نثر کی معراج تک ہوئی ہے۔ اور یہ معراج نثرنگاری کی معراج بھی ہے اور طنز و مزاح کی بھی کہ اسے عالمی ادب کے سامنے فخر و انبساط سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ عصر حاضر کا عظیم ترین صاحبِ اسلوب نثرنگار ان دنوں لندن میں مقیم ہے۔ اردو نثر نے ایسے معجزے کم دیکھے ہیں۔ اور ان معجزوں میں کچھ حصہ مغرب ژرف نگاہی بلکہ ژرف نگاری کا بھی ہے۔ عہدِ جدید کی دین ہے ہمہ جہتی انداز۔ ذرا سی بات میں ہزاروں نت نئے پہلو پیدا کرنا اور اس کے ذریعے ہر سمت میں تخیل کے دروازے کھولنا۔ اور یہی کیفیت ہے مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کی جنہیں صرف مزاح نگاری کے ضمن میں رکھ کر فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں آگہی اور بصیرت ہی نہیں ، ادبی اسلوب کی رمز شناسی اور تہہ داری بھی موجود ہے۔
- ڈاکٹر محمد حسن

یوسفی کی جس ادا پر میں بطورِ خاص فریفتہ ہوں ، وہ ہے اس کی اتھاہ محبت۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت ، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں ۔۔۔۔
یوسفی دور مار توپ ہیں۔ مگر اس توپ کا گولہ بھی کسی نہ کسی سماجی برائی پر جا کر پڑتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ کشتوں کے پشتے نہیں لگاتے۔ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
- سید ضمیر جعفری

یوسفی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چُپ ہو جاتا ہے۔ اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
- ڈاکٹر نورالحسن نقوی

ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔
- ڈاکٹر ظہیر فتح پوری


(آبِ گم)